Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 ”کس کی کال تھی ؟“عابدی صاحب نے فیاض کو پریشان دیکھ کر کہا۔ 
”عادلہ نے کال کی تھی عائزہ اچانک ہی بے ہوش ہوگئی ہے عابدی! مجھے ابھی فوراً ہی گھر جانا ہے “فیاض اتھتے ہوئے پریشان لہجے میں گویا ہوئے۔ 
”شیور شیور فیاض! تم بے فکر ہوکر جاؤں “عابدی نے ان کی جانب دیکھتے ہوئے فراخدلی سے کہا اور فیاض بڑی عجلت سے آفس سے نکلے، پریشانی ان کے چہرے کے ہر عضو سے نمایاں تھی، صبح گھر سے وہ نکلے تھے تو سب ٹھیک تھا حسب معمول سب نے ساتھ ناشتہ کیا، عائزہ امی کے برابر میں بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی اور وہ بالکل نارمل تھی اس کے کسی بھی انداز سے کوئی تکلیف ظاہر نہیں ہوتی تھی اس طرح اچانک اس کا بے ہوش ہونا انہیں فکر مند کرگیا تھا۔
اسی پریشانی میں وہ ارد گرد دیکھے بنا آگے بڑھ گئے تھے اور دوسرے گیٹ سے داخل ہونے والی شیری کی کار کی طرف بھی نہ دیکھ سکے تھے ۔


 

”ہیلو ڈیڈ!“وہ چیئر پر بیٹھتا ہوا بولا۔ 
”اوہ…آپ! کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ہوں شیری “خلاف معمول بیٹے کو آفس میں دیکھ کر وہ خوش گوار حیرت سے گویا ہوئے تو وہ بھی مسکراتے ہوئے بولا۔ 
”آپ جاگتے ہوئے خواب کب سے دیکھنے لگے ڈیڈ!“
”آپ کا آفس آنا کچھ ایسا ہی ہے ، گویا جاگتے ہوئے خواب دیکھنا، آپ تو آفس آنا ہی نہیں چاہتے تھے مائی سن!“
”میں نے بینکر بننے کی خواہش چھوڑ دی ہے ڈیڈ! اب میں چاہتا ہوں بزنس میں آپ کی مدد کروں، آپ کا رائٹ ہینڈ بنوں “ 
”گڈ…ویری گڈ!میرے لیے آج کا دن بے حد لکی ہے میں یہی چاہتا ہوں میرے اس وسیع بزنس کو میرا اکلوتا بیٹا سنبھالے، کیونکہ سارا بزنس اب میری پراپرٹی ہے“
”فیاض انکل کی بھی تو پارٹنر شپ ہے اس بزنس میں ڈید!“
”جب ہم نے یہ بزنس شروع کیا تھا شیری! تب ہم ففٹی ففٹی کے پارنٹر رہے اور کئی سالوں تک ایسا ہوتا رہا مگر پھر فیاض کی زندگی میں خاصے اتار چڑھاؤ آئے سیکنڈ میرج کے بعد اس کی قسمت ہی بدل گئی، آہستہ آہستہ اس کی قسمت اس سے روٹھتی چلی گئی اور جب کبھی ہم برابر کے شراکت دار تھے اب وہ مقروض ہے اس کا کوئی شیئر میرے پاس نہیں ہے، اب وہ میرے پاس ایک ورکر کی طرح جاب کر رہا ہے لیکن میں اس کو ابھی بھی ویسی ہی عزت دیتا ہوں مگر فیاض جیسا غیور، حساس اور ایمان دار آدمی میں نے آج تک نہیں دیکھا۔
وہ اتنا خوددار ہے کہ اپنی حیثیت سے کبھی آگے نہیں بڑھتا اس نے کبھی میری دوستی سے فائدہ اٹھانا تک گوارا نہ کیا “عابدی صاحب کے لہجے میں فیاض کے لیے عزت و احساس تھا ۔ 
”ڈیڈ! ابھی انکل گئے ہیں یہاں سے وہ چہرے سے خاصے ڈسٹرب لگ رہے تھے آپ کو معلوم ہے کیوں ڈسٹرب تھے وہ؟“معاً اس کو یاد آیا تو وہ چونک کر گویا ہوا۔ 
”اس کے گھر سے کال آئی تھی اس کی بیٹی بیمار ہے ۔
”بیٹی…کوئی سیریس مسئلہ ہے کیا ؟“
”معلوم نہیں ہے “
”ہمیں معلوم کرنا چاہیے ڈیڈ!ان سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں “ 
”ہوں…وہ کسی گہری سوچ میں مدغم تھے “
###
عائزہ کی ذہنی کیفیت بہت ابتر تھی۔ راحیل کے بدلتے روپ نے پہلے ہی اس کو زبردست ذہنی دباؤ سے دوچار کیا تھا پھر دست درازی کی کوشش اور اسی دوران راحیل کی ماں کا اس پر حملہ کرنا اور پھر ہر طرف خون ہی خون بکھر جانا درد کی اذیت سے تڑپتے راحیل کی حالت اس کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہورہی تھی ۔
اس پر بار بار غشی کی کیفیت طاری ہورہی تھی اور وہ نیم بے ہوشی میں راحیل کو پکار رہی تھی ۔ 
عجیب سراسیمگی طاری تھی اس پر ، اس کو اپنا ہوش نہیں تھا وہ ابھی بھی وقت کی گزری بھول بھلیوں میں گم تھی۔ وہاں خود پر گزرنے والی ساری کیفیت وہ دہراتی رہی تھی جس کو سن کر صباحت و عادلہ ہکا بکا رہ گئی تھیں۔ 
”اللہ نے بچا لیا میری بچی کو ، ورنہ ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے عادلہ! اب کسی طرح اس کا منہ بند کرنے کی سعی کرو اگر تمہارے پاپا نے سن لیا تو…ہماری خیر نہیں ہے، عائزہ کے ساتھ میرا بھی بہت برا حشر ہوگا “
”مجھے بھی یہی فکر لگی ہوئی ہے ممی! وہ تو شکر ہے پاپا اتنی دیر بیٹھ کر گئے ہیں اس دوران یہ چپ رہی“ عادلہ مدہوش عائزہ کی طرف دیکھ کر گویا ہوئی ۔
 
”ٹھیک کہہ رہی ہو تم ! مجھے بھی یہی فکر کھائے جارہی تھی یہ کچھ کہہ نہ دے اور فیاض تو کسی صورت معاف کرنے والے نہیں ہیں “
”آپ جاکر پاپا کو دیکھیں وہ پھر یہاں نہ آجائیں، میں جب تک اس کو ہوش میں لاکر سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں “
”آج تو شاید ہمارے ستارے گردش میں ہیں پہلے فاخر کے سامنے یہ سب ہوا، تمہارا جھوٹ بھی اماں کی وجہ سے فاش ہوا “صباحت بے حد غمگین اور فکر مند دکھائی دے رہی تھی ۔
 
”ممی! وہ بات میں نے گھمادی تھی ، فاخر بھائی نہیں سمجھے ہوں گے “عادلہ نے ماں کو تسلی دی ۔ 
”یہ تمہاری خوش فہمی ہے عادلہ! فاخر فرخندہ بھابھی کا بیٹا ہے ماں جیسی چالاکی اور مکاری فاخر میں بھی موجود ہے وہ اس وقت جتنا بے خبر اور انجان بن رہا تھا، درحقیقت وہ اتنا ہی متوجہ ہوگا “
”ڈونٹ وری ممی! جو ہوگا دیکھا جائے گا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پاپا کو اس واقعے سے دور رکھنا ہے وہ جتنے کول مائنڈ ہیں غصے میں اتنے ہی بے قابو ہوجاتے ہیں ۔
”اوکے میں جاتی ہوں فیاض کے پاس اور ہاں وہ اماں اور پری پر نظر رکھنا وہ بھی ابھی دوبارہ آئیں گی عائزہ کو دیکھنے کے لیے ایسا نہ ہو ان کے سامنے پھر یہ اول فول بکنا شروع کردے اور پھر ہم کسی طرح بھی بچ نہیں پائیں گے “وہاں سے جاتے ہوئے اس کو سمجھا کر گئی ۔ 
”پری! یہ سب کیا ہورہا ہے بیٹی! ایسا لگ رہا ہے جیسے صباحت اور عادلہ کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں ہم دونوں دادی پوتی سے “فاخر کے جانے کے بعد وہ بھی نماز ادا کرنے اپنے کمرے میں چلی آئی تھیں۔
جب سے عائزہ کو انہوں نے بے سدھ پڑے دیکھا تب سے ان کے اندر ایک بے کلی سے پیدا ہوگئی تھی ان کی چھٹی حس کہہ رہی تھی معاملہ وہ نہیں ہے جو بتایا جارہا ہے بلکہ اصل معاملہ بہت گہرا اور نازک ہے جس کی تہہ تک پہنچا بے حد ضروری ہے لیکن سچائی کا کوئی سرا ہاتھ میں آکر نہیں دے رہا تھا عادت کے مطابق انہوں نے اپنی اسی الجھن کو پری سے شیئر کیا تھا۔ 
”دادی جان!ابھی عائزہ بھی تو ہوش میں نہیں آئی ہے وہ اچھی طرح ہوش میں آئے تو معلوم ہو اصل بات کیا ہوئی ہے ؟“پری نے ان کا ذہن ہلکا کرنے کے لیے بات کی تھی ورنہ درحقیقت معاملے کی سنگینی کو وہ پوری طرح سے محسوس کر رہی تھی ۔
 
راحیل سے وہ محبت کرتی تھی اور اسی دیوانگی میں دو مرتبہ گھر سے فرار ہوتے ہوئے عین موقع پر پکڑی گئی تھی، اس کی حرکتیں عزت کے خیال سے کچھ دلوں میں ہی دفن ہوگئی تھیں اور آج جو اس کی حالت تھی (جس کی عادلہ اور صباحت پردہ پوشی کر رہی تھیں) وہ ایسی ہی داستان کی انتہا کا شاخسانہ لگ رہی تھی ۔ 
وہ دلی طور ر بے حد رنجیدہ اور خوف زدہ تھی دل تھا کہ بے ہنگم انداز میں دھڑکے جارہا تھا، عجیب سے وسوسوں کا شکار ہوگئی تھی وہ۔
سب سے دکھ کی بات یہ تھی کہ وہ دادی کو بتا بھی نہیں سکتی تھی ۔ 
”عادلہ کو جھوٹے بولتے ہوئے ذرا بھی لاج نہیں آتی ہے مجھ سے خود کہا اس نے عائزہ ممی کے ساتھ آنٹی سے ملنے گئی ہے اور تم نے دیکھا فاخر کے سامنے کسی ڈھٹائی سے اپنی زبان بدلی تھی اس نے؟“دادی اس کی سوچوں سے بے خبر کہہ رہی تھیں۔ 
”میں بھی فاخر کی وجہ سے کچھ بولی نہیں کہ وہ اس گھر کا داماد ہے ان باتوں سے کچھ غلط مطلب لے بیٹھے تو ساری زندگی اس بچی کی دوبھر ہوجائے گی ۔
مردوں کو بدلتے ہوئے بھلا کوئی دیر لگتی ہے ۔ “
”دادی جان! آپ پاپا کے پاس جائیں وہ بے حد پریشان و فکر مند ہوگئے ہیں اس وقت آپ ہی ہیں جو ان کو سمجھاسکتی ہیں تسلی دے سکتی ہیں پاپا بے حد اب سیٹ ہوگئے ہیں۔ “پری کو فیاض صاحب کی بھی فکر تھی اس نے انہیں اس طرح پریشان بہت کم دیکھا تھا جس طرح وہ عائزہ کی بے ہوشی کا سن کر آئے تھے ۔ 
”بہت محبت کرتا ہے فیاض بیٹیوں سے ، پریشان تو ہوگا “
###
نصف رات گزر چکی تھی۔
نیند اس کی آنکھوں سے اوجھل تھی وہ بے حس و حرکت ریشمی قیمتی بستر پر دراز تھی اس نے نفرت بھری نگاہوں سے قریب سوئے ہوئے حارث کرمانی کو دیکھا جس کے ساتھ وقت گزارنا اسے شدید اذیت میں گرفتار کردیتا تھا وہ روز جیتی اور روز مرتی تھی مگر لبوں پر ایک حرف شکایت نہیں لاتی تھی کہ حارث کرمانی بہت ظالم اور بے رحم آدمی تھا، ماہ رخ کو اس کے ساتھ رہتے ہوئے کئی ماہ بیت گئے تھے اس عرصے میں وہ اس کو سمجھ گئی تھی وہ چار سے زائد بیویوں کے ہوتے ہوئے بھی اس جیسی کئی کنیزیں رکھتا تھا۔
وہ فطرتاً اوباش آدمی تھا اور اس کے دوست احباب بھی اس کی طرح بدکردار و ہوس پرست تھے ۔ 
وہاں کی ایک ملازمہ سے اس کی گہری دوستی ہوگئی تھی اور اس پرانی ملازمہ سلمیٰ نے اس کو حارث کرمانی کو قابو کرنے کے گر سکھائے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ کئی ماہ سے حارث کرمانی کی منظور نظر تھی ۔ کیوں کہ وہ کسی لڑکی کو چند ہفتے قریب رکھتا تھا پھر اس کے بعد وہ لڑکیاں کہاں غائب ہوجاتی تھیں یہ ملازمہ سلمیٰ کو بھی معلوم نہ تھا پھر ماہ رخ کی بے انتہا خوب صورتی نے بھی حارث کی دیوانگی کم نہ ہونے دی تھی، وہ اس کی خاطر سب کو بھلا بیٹھا تھا۔
 
وہ گہرا سانس لے کر بستر سے نکلی اور گاؤن کی ڈوریاں باندھتی ہوئی مشرقی افق کی جانب کھلنے والی کھڑکی کھول کر باہر دیکھنے لگی، رات کا سیاہ اندھیرا ہر سو بکھرا ہوا تھا۔ صحرا کی رات میں بڑی خاموشی و اسرار تھا شہروں کے دھوئیں اور دوسری کثافتوں سے پاک فضا پررونق تھی، سیاہ رات کے آنچل پر چاند و ستارے جگمگارہے تھے وہ یک ٹک چاند ستاروں کو دیکھ رہی تھی ۔
 
”اوپر کیا دیکھ رہی ہو رخ!“ایک رات گلفام نے اس سے پوچھا تھا۔ 
”چاند کو دیکھ رہی ہوں، کس قدر حسین نظر آرہا ہے…دیکھونا “
”میرا چاند تو مجھے ہر وقت نظر آتا ہے دن میں بھی اور رات میں بھی۔ میرے چاند سے بڑھ کر حسین تو نہیں ہے وہ چاند “گلفام اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں بولا۔ 
”تم …مجھے چاند کہہ رہے ہو سیاہ فام؟“وہ اس کی طرف دیکھتی ہوئی ہنس کر گویا ہوئی تھی ۔
 
”تمہیں معلو م ہے چاند میں داغ ہوتا ہے ، کل اگر مجھ پر بھی ایسا کوئی داغ لگ گیا تو…“گلفام نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے گھبرا کر کہا تھا ۔ 
”خدا نہ کرے جو کبھی ایسا ہو یہ کیسی باتیں کر رہی ہو رخ !“
”میرے سوال کو ٹالنے کی کوشش مت کرو ، بتاؤ مجھے اگر ایسا کبھی ہو تو تم مجھے اسی طرح چاہو گے؟ محبت کروگے؟“نامعلوم اس لمحے اس کے دل میں کیا سمائی کہ وہ اس سے اصرار کر رہی تھی۔
اس سے قبل کبھی بھی گلفام کی محبت کو کوئی اہمیت نہ دی تھی۔ 
”میری محبت اس چاندنی کی مانند شفاف اور پاکیزہ ہے رخ! میری نظر میں محبت جسموں کے نہیں روح کے ملاپ کا نام ہے۔ جسم ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور مٹی ہوجاتے ہیں ، روحیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور ایک دوسرے کی ہوجاتی ہیں، ہم ایک دوسرے کے اس وقت ہی ہوگئے تھے شاید جب ہماری روحیں ان جسموں کے پنجروں سے آزاد تھیں۔
آج بھی میں تمہیں چاہتا ہوں اور ہمیشہ چاہتا رہوں گا، تم کو یقین آئے یا نہ آئے لیکن میں سچ کہہ رہا ہوں “گلفام کی آواز اس کی سماعتوں میں گونج رہی تھی ، آنسوؤں کی بے آواز جھڑی اس کی آنکھوں سے بہہ رہی تھی ۔ 
”گل فام!تمہیں میں نے ہمیشہ سیاہ فام کے لقب سے پکارا، تمہاری سانولی رنگت اور عام سے خدوخال والے چہرے کو ہمیشہ نے میں نے بے زاری و نفرت کی نگاہوں سے دیکھا، تمہاری جنون خیز محبت کو حقیر و مضحکہ خیز سمجھا، تم کتنے مہربان تھے، کتنی محبت کرتے تھے اور میں خواہشوں کے حصول کے لیے سرگرداں اس وقت سمجھ ہی نہ سکی کہ جن خوش رنگ تتلیوں کے پیچھے میں سرپٹ بھاگ رہی ہوں یہ ہاتھ میں آکر پھر اڑگئیں تو کیاہوگا؟ اور ایسا ہی ہوا بھی…تتلیاں اڑگئیں ساتھ مجھے آندھی کھائی میں گراگئیں، جہاں غلاظت بھری ہوئی ہے اور میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اس گندگی میں ڈوب رہی ہوں “

   1
0 Comments